
منٹو صاحب نے اس عورت کے بارے میں بھی نجانے کیوں نہیں لکھا. جس کا دل محبوب کے قدموں میں لپٹنے کو کرتا ہے, اور تمام عمر اسکے سنگ گزارنے کی آرزو ہے. لیکن وہ تمام عمر نہ سہی ایک رات بھی اپنے من چاہے محبوب کے ساتھ نہیں گزار سکتی کیونکہ اسے اپنی پارسائی کا بوجھ اٹھانا ہے
منٹو صاحب نے اس عورت کا دکھ کیوں نہیں لکھا جس کا شوہر گھر میں اور گھر سے باہر اپنی من چاہی ہر عورت سے جب چاہے مل سکتا ہے لیکن وہ عورت مستقبل کے انجان خدشوں سے ڈرنے کے سوا اور کچھ نہیں کر پاتی. اپنے شوہر کی طرح اپنے من چاہے ساتھی کے ساتھ کچھ لمحات تک نہیں گزار سکتی
کیونکہ اسے پارسائی کا بوجھ اٹھانا ہے.
منٹو صاحب شریف زادیوں کے دکھوں سے کیونکر انجان رہے…
پارسائی کا یہ بوجھ بھی بڑا ظالم ہے جس میں عورت کھل کر سانس بھی نہیں لے سکتی. منٹو صاحب نے اس بہن کو اپنے افسانے کی ہیروئین نہیں بنایا. جس کے بھائی تو تمام دنیا کو فتح کرتے پھرتے ہیں لیکن اسے چاردیواری پار کرنے کی بھی اجازت نہیں اور وہ بھائیوں کی غیر موجودگی میں انکی رضا سے بندھی پارسائی کا بوجھ اٹھا رہی ہے.
آج اگر منٹو صاحب زندہ ہوتے تو میں ان سے ضرور پوچھتا کہ وہ عورت جو دن رات اپنے شوہر کی , بچوں کی , سسرالی رشتے داروں کی خدمت میں جتی ہوئی ہے اور جسے جواب میں طعنے , مار پیٹ , گالی گلوچ کے علاوہ کچھ نہیں ملتا پھر بھی وہ اف تک نہیں کرتی وہ ان کے افسانوں کی ہیروئین کیوں نہیں ہو سکتیں..؟
وہ ماں ان کے افسانوں کی ہیروئین کیوں نہیں ہو سکتی جو بھری جوانی میں بیوہ ہو گئی اور پھر اس نے ساری جوانی کی ان گنت راتیں جاگ کر اور بستر پہ کروٹیں بدلتے گزاریں لیکن پھر بھی پارسائی کا بوجھ اٹھائے رکھا. تاکہ کل کو اس کے بچوں کو کوئی اس کے نام کا طعنہ نہ دے
شاید منٹو صاحب کو یہ معلوم نہیں تھا کہ شریف زادیوں کے دکھ اور اندیشے طوائف زادیوں سے بھی بڑے ہوتے ہیں.۔
تحریر کا مصنف نا معلوم
اسلام علیکم فرحہ اسما خان اگر اپکا وٹپس گروپ ہیں تو مہربانی کرکے مجھے اس میں شامل کرو یہ میرا وٹپس نمبر ہیں 0096599281690
LikeLiked by 1 person