مقصد تخلیق انسانیاس حوالے سے علماء کے تین طبقے ہیں:۱۔ بعض علماء کی نظر اس آیت پر ۔ انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔ (البقرۃ: ۳۰) وغیرہ پر ہے۔ لہٰذا ان علماء کی رائے میں انسانی تخلیق کا اصل مقصد خلافت ہے۔

مقصد تخلیق انسانی
اس حوالے سے علماء کے تین طبقے ہیں:
۱۔ بعض علماء کی نظر اس آیت پر ۔ انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔ (البقرۃ: ۳۰) وغیرہ پر ہے۔ لہٰذا ان علماء کی رائے میں انسانی تخلیق کا اصل مقصد خلافت ہے۔ جیسا کہ ابن عباس سے مروی تفسیر ہے کہ خلیفہ سے مراد خلیفۃ اللہ ہے۔ لہٰذا ان علماء کے ہاں اہمیت سیاسی عمل کو حاصل ہے۔ ذاتی اصلاح کو یا تو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے، یا پھر ثانوی حیثیت دی گئی ہے۔
۲۔ بعض دوسرے علماء کی نظر و ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔ (الذارایات: ۵۶) پر رہی ہے۔ ان کی رائے میں انسانی تخلیق کا اصل مقصد عبدیت (ذاتی اصلاح) ہے۔ خلافت (سیاسی عمل) کو یا تو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے، یا پھر ثانوی حیثیت اس کو حاصل ہے۔
۳۔ تیسرا طبقہ علماء کا ایسا ہے کہ ان دونوں آراء میں اشتباہات بیان کرتے ہیں۔ اول رائے میں یہ کہ خلافت بمعنی اصلاح جامعہ لینا اور سیاسی عمل کو اہمیت دے کر عبدیت یعنی ذاتی اصلاح کو نظر انداز کرنا یاثانوی حیثیت دینا اس لیے مناسب نہیں ہے کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں: ’’بُنی الاسلام علی خمس، شہادۃ ان لا الٰ۔ہ الا اﷲ وان محمدا عبدہ ورسولہ واقام الصلاۃ وایتاء الزکاۃ وحج البیت وصوم رمضان‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، حدیث: ۱۱۳) اس کا معنی یہ ہے کہ پُرامن جامعہ یا ایسا جامعہ جو اللہ جل جلالہ کی ہدایات اور نبی ﷺ کی سنت کے سامنے تسلیم ہو، اسی صورت میں ممکن ہے کہ کم از کم اس کے بااختیار لوگ ذاتی اصلاح کے حامل ہوں اور ذاتی کردار ان کی عبدیت کی ہو یعنی اللہ اور رسول کی کامل تعظیم وکامل اطاعت کی صفت سے متصف ہوں۔ کیونکہ اسلام بمعنی سلم یعنی امن ہو یا بمعنی تسلیم یعنی سپردگی، دونوں صورتوں میں مفہوم یہ نکلتا ہے کہ امن کا حامل جامعہ اور ایک ایسا جامعہ جس نے سب کچھ اللہ اور رسول کے سپرد کیا ہو اور اس کا کوئی بھی عمل اور تصرف اللہ کی ہدایات اور نبی ﷺ کی سنت کے خلاف نہ ہو، اسی صورت میں ممکن ہے جب افراد جامعہ میں یہ پانچ چیزیں موجود ہوں جن کا تعلق عبدیت یعنی ذاتی اصلاح سے ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ چھت دیواروں یا ستونوں پر قائم ہے۔ معنی یہ کہ صرف دیواریں یا ستون تعمیر نہیں کہلاتے اور نہ ہی موسمی تغیرات سے بچائو کا باعث بنتے ہیں۔ اور نہ ہی کسی ٹیک کے بغیر چھت کا کھڑا کرنا ممکن ہے۔ لہٰذا جیسا کہ ہر تعمیر میں چھت اور اس کے ٹیک چاہے دیواروں کی صورت میں ہوں یا ستونوں کے، ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح خلافت بمعنی اصلاح جامعہ یعنی سیاسی عمل اور عبدیت یعنی افراد کی ذاتی اصلاح الٰہی ہدایات اور نبی ﷺ کی سنت کے مطابق بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ذاتی اصلاح (عبدیت) بغیر جامعہ کی اصلاح کے کامل نہیں ہوسکتی اور جامعہ کی اصلاح بغیر ذاتی اصلاح کے ممکن نہیں۔ اسی لیے ایک موقع پر نبی ﷺ فرماتے ہیں: ’’رجعنا من الجہاد الاصغر (یعنی طاغوت اور ظالم قوت کے ساتھ حق کیلئے جنگ کرنے کے عمل سے) الی الجہاد الاکبر (یعنی اپنے آپ کو اندرونی کیفیات اور ظاہری اعمال میں خودپسندی، خودغرضی، مفاد پرستی غرضیکہ ذاتی زندگی میں نفس کے ہر قسم کے تسلط سے نجات حاصل کرنے کی جنگ جس کو تزکیہ نفس کہتے ہیں) یعنی ہم پہلے جہاد سے جو چھوٹا تھا دوسرے بڑے جہاد جو نفس کے ساتھ ہے لوٹ آئے۔ ظاہر بات ہے جب تک مجاہدین کی وہ جماعت جو طاغوت کے ساتھ مصروف جنگ ہے۔ اپنی ذات کے اندر نفس کے تسلط سے آزاد اور اللہ اور رسول کی عبدیت کی صفت سے متصف نہ ہوگی وہ اس جنگ کے ذریعے سے شاید ظالم کو بدل دیں۔ مگر ظلم کا خاتمہ نہیں کرسکتے۔ اس لیے کہ یہ جماعت خود اپنے نفس کے تسلط سے آزاد نہیں اور نہ ہی عبدیت کی صفت سے متصف ہے۔ تو وہ اگر اس جنگ کے ذریعے جامعہ کو مسلط طاغوت سے نجات بھی دلادیں۔ تو یہ نئے طاغوت کی شکل میں جامعہ پر مسلط ہونگے۔ لہٰذا جامعہ آزادی کی نعمت سے دور ہونے کی بجائے نئے طاغوت کی غلامی میں جکڑے جائینگے اور بہت ممکن کہ نیا طاغوت پرانے کی نسبت زیادہ خطرناک اور ظالم ثابت ہو۔ لہٰذا مشہور کہاوت کے مطابق بکری کیلئے کیا فرق ہے کہ اگر بھیڑیئے سے چھڑائے اور کتا خود کھائے۔
معلوم ہوا کہ جامعہ کو طاغوت سے نجات دلانے اور اللہ ورسول کی اطاعت میں لانے کے عمل میں مصروف قوت و جماعت کے لیے لازم ہے کہ وہ اور اس کے علمبردار افراد اپنی ذاتی زندگی میں اندرونی احساسات و میلانات اور ظاہری کردار و عمل کے میدان میں نفس کے ہر قسم کے تسلط سے آزاد ہوں۔ وگرنہ اگر یہ جماعت دعوت و سیاست کے میدان میں ہے تو اس کی دعوت و سیاست ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ نہیں بلکہ نفرت کا ذریعہ بنے گا اور اگر حکومت اور جہاد کے میدان میں رہے تو یہ حکومت اور جہاد ظلم کے خاتمے کا نہیں بلکہ پرانے طاغوت کے بدلنے اور نئے طاغوت کے مسلط ہونے کا ذریعہ بنے گا۔
ب۔ جن علماء کی نظر عبدیت کی آیت پر ہے اس میں یوں اشتباہ بیان کیا جا سکتا ہے کہ اس آیت کا مقصد اگر ذاتی اصلاح ہے تو پھر آیت میں جن اور انس دونوں کا مقصد تخلیق بیان کیا گیا ہے۔ اگر دونوں کا مقصد تخلیق ایک ہے تو دونوں فضیلت میں برابر ہونے چاہئیں جبکہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ انس کو جن پر فضیلت ہے تو وہ فضیلت کس چیز میں؟
۲۔ بلکہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت افراد کی ذاتی اصلاح کی بنیاد پر صالح جامعہ کی تشکیل کے لیے تھی۔ جیسا کہ کمپنی جہاں اپنی ایجاد کردہ مشن کے لیے پرزے بناتی ہے وہاں ان پرزوں کو باہم جوڑ کر ایک واحد شکل بھی دیتی ہے تب پھر کمپنی کا یہ پورا عمل کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا پرزوں کی صالح بناوٹ اور ان کے جوڑنے سے مشین کی تکمیل ہوتی ہے اور مشین کے مکمل ہونے سے ہر ایک پرزہ اپنی اپنی جگہ پر کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ یہی کیفیت صالح جامعہ اور اس کے صالح افراد کی ہے اور نبی ہو یا امام جہاں دعوت علی وجہ البصیرت کے ذریعے عبدیت کی بنیاد پر صالح افراد تیار کرنے کے عمل میں مصروف ہوتا ہے وہاں ان صالح افراد سے ایک صالح جامعہ کی تشکیل کلی دعوت و عمل بھی جاری رکھتا ہے تو گویا عبدیت اور خلافت کے دعوت و عمل کو ایک ساتھ جاری رکھنا ہی انبیاء علیہم السلام کا مشن تھا اور ہمارے نبی ﷺ کی نبوت اور ان کی دعوت و عمل رہنمائی اور سیرت و سنت سے عبدیت اور خلافت دونوں کی تکمیل ہو چکی ہے اس لیے وہ نبی بھی تھے، امام بھی تھے اور خلیفہ بھی۔
۳۔ موسیٰ علیہم السلام کی نبوت اگرچہ بنی اسرائیل کو فرعون کے استبداد، ظلم اور تسلط سے نجات دلانا تھا لیکن سب سے پہلا حکم یہ ہوتا ہے کہ (طٰہٰ: ۲۴) سیدھا فرعون کے پاس جا کر اس کی حاکمیت اور سیاست تمام خرابیوں اور فساد، سرکشی اور بغاوت کی جڑ ہے تو موسیٰ علیہ السلام نے جہاں دعوت کے ذریعے بنی اسرائیل کو الٰہی عبدیت کی جانب راغب کرنے کی جدوجہد کی وہاں طاغوت اور اس کے تشکیل کردہ طاغوتی جامعہ کی اصلاح کے لیے بھی جدوجہد جاری رکھی۔ لہٰذا عبدیت و خلافت (سیاست) دونوں کے لیے دعوت و عمل جاری رکھا۔
۴۔ انبیاء علیہم السلام کی تاریخ میں قامل توجہ بات یہ ہے کہ ان کے اور ان کی قوموں کے درمیان اختلاف اور محاذ آرائی عبدیت یعنی اپنی ذات کو الٰہی ہدایات کے تابع بنانے کے میدان میں تھی۔ یا سیاست و خلافت یعنی ایک صالح جامعہ کی تشکیل اور اس کی رہبری اور نگرانی پر تھی۔
موسیٰ علیہ السلام سے اس کی قوم کہتی ہے: (یونس: ۷۸) کیا تم اسی لیے ہمارے پاس آئے ہو کہ جس طرز زندگی پر ہم نے اپنے آباء واجداد کو پایا ہے اس سے ہمارے رخ کو موڑ کر اپنے پیچھے لگائے تاکہ اس خطہ زمین پر حاکمیت تم دونوں بھائیو کی ہو۔ ہم کسی بھی صورت میں تمہاری اس حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے ۔ شعیب علیہ السلام سے قوم نے کہا (ھود: ۸۷) یعنی کیا تمہاری خدا پرستی تمہیں یہی بتاتی ہے کہ ہمارے آباء واجداد جن کی تعظیم و اطاعت کرتے تھے، ان سے یکسر دستبردار ہو کر چھوڑ دیں اور تمہارے پیچھے ایسے لگ جائیں کہ ہمیں اپنے مال میں بھی اپنے مرضی کا تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو بلکہ زندگی کے ہر معاملہ میں رہنمائی آپ سے لیں گے اور تعظیم اطاعت آپ کی کریں گے۔ یہ تو ہم تم کو بڑا نیک اور پارسا سمجھ رہے تھے تم نے بھی تسلط حاصل کرنے کی ٹھان لی ہے۔ جب ابو طالب مرض موت میں مبتلا ہوئے تو سرداران قریش نے طے کیا کہ ابو طالب کے پاس چلتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ بھتیجے اور ہمارے درمیان تصفیہ کرا دو۔ قریش میں یہی ایک شخص ہے کہ یہ تصفیہ کراسکتا ہے اگر یہ نہ رہا تو یہ تصفیہ کبھی بھی نہیں ہوگا۔ اس شخص کے دونوں طرف روابط ہیں ہم سے عقیدے کا اور ان سے رشتے اور تعاون کا، لہٰذا ہم دونوں اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ ابوجہل سمیت سرداران قریش ابو طالب کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ بھتیجے کے ساتھ ہمارا تصفیہ کرا دو ہم تمام سرداران قریش اس اکیلے شخص کو اپنا ہم پلہ تسلیم کرتے ہیں۔ لہٰذا انفرادی زندگی ہم اس کے حوالے کرتے ہیں۔ بیشک ایک خدا کا عقیدہ رکھے عبادت اور نذر و نیاز ایک خدا کے لیے دے عبادت و سجدہ ایک خدا کو کرے اور لوگو کو بھی دعوت دے لیکن اجتماعی معاملات ہم پر چھوڑ دے۔ زندگی کے دو شعبوں میں سے ایک شعبہ انفرادی زندگی کا اس کے حوالے ہوگا اور دوسرا شعبہ اجتماعی زندگی کی رہبری اور نگرانی اور اس پر غلبہ اور بالادستی ہم پر چھوڑے۔ راستے دو ہو جائیں گے ذاتی زندگی کی تشکیل اس کے حوالے اور اجتماعی زندگی کی سرپرستی ہمارے حوالے ہوگی۔ لہٰذا نہ ہم اس کے راستے اور دعوت کے روک بنیں گے اور نہ وہ ہماری سرداری اور سربراہی کا خطرہ۔
ابو طالب نے نبی ﷺ کو بلا کر کہا کہ یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے کہ اگر قوم کے تمام سربراہان و سرداران آپ کو اپنا مساوی تسلیم کر کے آدھا حصہ زندگی کا آپ کو حوالہ کرتے ہیں تو آپ کو یہ فیصلہ تسلیم کرنا چاہیے۔
نبی ﷺنے ابوجہل کو مخاطب کر کے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک ایسی بات نہ بتاؤں کہ اگر تم لوگ میری اس بات کو مانو گے تو تمام عرب پر تو تمہارا اقتدار رہے گا ہی، بلکہ عجم بھی تمہارے اقتدار کے تابع ہو کر تمہیں جذبہ دیں گے۔ ابو جہل نے کہا اس قسم کے دس کلمے بتا دو۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بولو ’’لا الٰ۔ہ الا اﷲ‘‘ سرداران قریش سمجھ رہے تھے۔ کہ الٰہ کا معنی حاکم ہے تو ہم اس اللہ کے محکوم ہوں گے جس کے پیغام رسانی کا دعویٰ محمد ﷺ کرتے ہیں۔ یا ’’الٰہ‘‘ بمعنی مالک ہے تو ہم اس کا مال ہوں گے غلام ہوں گے۔ یا بمعنی معبود ہے تو ہم اس کی تعظیم واطاعت کے پابند ہوں گے۔ اگر ہم نے یہاں یہ وعدہ کیا تو محمد ﷺ کے اللہ کی تو نہ ہمیں جگہ معلوم ہے نہ ان کی ذات سے واقف ہیں، نہ براہ راست ہماری نشست اور گفتگو ان سے ہو سکتی ہے تو یہی ہوگا کہ محمد ﷺ ہمیں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں ہدایات دے گا۔ نسبت اللہ سے کرے گا اور ہم ان ہدایات کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہوں گے گویا عملاً ہم سب محمد ﷺ کے محکوم و غلام ہوں گے اور اس کی تعظیم و اطاعت کے پابند ہوں گے۔ لہٰذا نام خدا پرستی کا ہوگا اور کام حاکمیت اور بالادستی کا لیا جائے گا، اس لیے سرداران قریش کہنے لگے (ص : ۶) یعنی اب تو بالکل واضح ہوا کہ اس پورے جدوجہد سے مقصد اقتدار و بالادستی قائم کرنا ہے جو ہم پہلے کہا کرتے تھے کہ یہ شخص اقتدار کا طالب ہے۔ آج بھی اگر دین و شریعت کے حوالے سے اقتدار و حاکمیت پر انگلی نہ اٹھائی جائے تو ذاتی معاملات میں شرعی ہدایات کی پابندی کرنے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ البتہ جس دعوت میں شرعی اصول ہدایات کی روشنی میں اقتدار و حاکمیت پر حرف گیری ہو تو مستبد قوتیں سٹپٹا جاتی ہیں تو جب دعوت علی منہاج النبوت ہو تو اس میں ذاتی زندگی کی اصلاح اور صالح جامعہ کی تشکیل دونوں کے لیے دعوت و عمل ساتھ ساتھ جاری رہے گا اور وہی قوتیں ابتدائی طور پر مقابلے میں رہیں گی جو انبیاء کے مقابلے میں رہی ہیں۔ اگرچہ بعد میں مقابل قوتیں بھی نبی ﷺ کا ساتھ دینے لگیں۔ سورہ بقرہ کے ابتداء کے دو رکوع میں نبی ﷺ کی دعوت کے مخاطبین کی تقسیم بیان کی گئی ہے کہ مخاطبین میں کچھ وہ لوگ ہوں گے جن کو آپ کی ذات پر مکمل اعتماد ہوگا اور آپ کی دعوت کو دل کی گہرائیوں سے تسلیم کریں گے۔ یہ ہیں مومن یعنی کامل اعتماد کرنے والے۔ دوسرا وہ طبقہ ہوگا جو کھل کر آپ کی ذات پر اعتماد کریں گے اور نہ ہی آپ کی دعوت کو تسلیم کریں گے۔ یہ ہیں کافر یعنی نہ ماننے والے۔ اور ایک تیسرا طبقہ ایسا ہوگا کہ خود غرض اور مفاد پرست ہوگا۔ اس کو منافق کہتے ہیں یعنی ان کی کسی بات پر کوئی اعتماد نہیں ہوگا۔ سورہ بقرہ کی آیت ۲۱ سے ۲۹ تک نزول وحی کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ نزول وحی کا مقصد انسانی فرد اور جامعہ کی حفاظت اور اس مقصد کے حصول کا راستہ عبدیت یعنی اللہ و رسول کی کامل تعظیم اور ان کے ہدایات کی کامل اطاعت واحد راستہ ہے۔ انسانی فرد اور جامعہ کی ہر قسم کے مصائب مشکلات اور نقصانات و پریشانیوں سے حفاظت کا۔
سورہ بقرہ کی آیت ۳۰ میں انسانی تخلیق کی حکمت افادیت اور مقصد بتایا گیا ہے کہ خلافت ہے۔ ابن عباسؓ کی تفسیری روایت کے مطابق خلیفہ کا معنی خلیفۃ اللہ ہے۔ ملائکہ کے استفسار سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ نئی مخلوق اللہ کا خلیفہ ہوگی تو مخلوق میں تعدد ہوگا اور اللہ کی صفات میں نمایاں صفات دو ہیں۔ ۱۔ اختیار ۲۔ اقتدار۔ تو گویا خلافت کی بنیاد پر ہر فرد بشر اختیار کا مالک بھی ہوگا اور اقتدار کی صلاحیت بھی رکھتا ہوگا تو ایسی صورت میں حصول اقتدار کے ریس میں تصادم ہوگا۔ آبادیاں اجڑیں گی اور خون بہے گا۔
سابقہ بحث سے شاید یہ بات واضح ہو چکی ہو کہ انسانی تخلیق کا مقصد خلافت لینا اور سیاسی عمل کو اولیت دینا اور ذاتی اصلاح سے صرف نظر کرنا۔ یا انسانی تخلیق کا مقصد عبدیت لینا اور صرف ذاتی اصلاح پر نظر مرکوز کرنا اور سیاسی عمل یعنی اصلاح جامعہ کے دعوت و عمل سے صرف نظر کرنا دونوں رائے اشتباہات سے خالی نہیں ہیں۔
خلافت اور عبدیت لغوی مفاہیم کے اعتبار سے اگرچہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لیکن عملی تطبیق اور خارجی مصداق کے اعتبار سے ایک ہیں۔ ذاتی زندگی میں انسان کے پاس دو چیزوں کا نقد سرمایہ ہے۔ ایک جان، یعنی سر سے لیکر پاؤں تک انسانی صلاحیتیں مثلاً دل و دماغ سے سوچتا او رمنصوبہ بندی کرتا ہے۔ کانوں سے سنتا، آنکھوں سے دیکھتا، زبان سے بولتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور دوسری چیز مالی وسائل ہیں۔ ان دونوں کو انسان اپنی تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی، معاشی اور تمدنی میدانوں میں استعمال کرتا ہے اور اس استعمال کے بدلے میں کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جن چیزوں کو انسان حاصل کرنا چاہتا ہے ان کے تعین کے لئے انسان کے پاس دو ذریعے ہیں۔ ایک نفس جس کی چاہت اور انتخاب کا تعلق ظاہر اور مادی اور دنیاوی مفادات، خواہشات، لذائذ سے ہے۔
اور دوسرا عقل: جس کے انتخاب اور خواہش اور طلب کا مدار دلیل حجت، برہان اور بصیرت پر ہے۔ اب اگر انسان اپنی شخصی زندگی میں اللہ کا خلیفہ ہوگا۔ تو وہ جان اور مال کے سرمائے کا نفس سے دفاع کرے گا بچائے گا، جہاد مع النفس کرے گا۔ اور عقل ودلیل کے راستے سے وحی کی روشنی میں اپنی جان اور مال پر مسلط اور حاکم کرے گا۔ اس طرح زندگی میں انسان خلیفہ ہے۔ اس اعتبار سے ہے کہ اس نے اپنے اندر اللہ کی حاکمیت قائم کی ہے، اپنی جان اور مال کو نفس کے تسلط سے آزاد کیا ہے جو جہاد ہے۔ اور دلیل کے راستے سے وحی کی روشنی اور حدود اربعہ میں عقل کو اپنی جان اور مال پر مسلط کر کے حاکم کیا ہے جو خلافت ہے، اور عبد ہے۔ اس لئے کہ وہ اپنی جان اور مال کو اللہ کی تعظیم و اطاعت میں اور نبی ﷺ کی سیرت اور سنت کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ اور عبدیت اسی تعظیم و اطاعت کا نام ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں انسان اپنی ذاتی زندگی میں خلیفۃ اللہ بھی ہے اور عبداللہ بھی۔ لیکن عبدیت کا پہلو نمایاں ہے سب دنیا کو نظر آتا ہے کہ یہ شخص اپنی جان اور مال کو اللہ اور رسول کی اطاعت و تعظیم میں استعمال کرتا ہے۔ لیکن ذات پر اس کی حاکمیت کا پہلو نظر نہیں آتا۔ اس لئے انسان کی ذاتی زندگی کے میدان میں خلافت سے بھی تعبیر عبدیت سے کی جائے گی۔ اور جب یہی شخص دعوت کے میدان میں امامت کے مرحلے سے گزر کر عام پبلک کے اعتماد اور رضامندی کے نتیجے میں خلافت کے منصب پر فائز ہوتا ہے اور ایک صالح جامعہ تشکیل دیتا ہے، تو وہ اس جامعہ سے دفاع بھی کرتا ہے، جو جہاد ہے۔ اور اس پر اللہ کی حاکمیت بھی قائم کرتا ہے، جو خلافت ہے۔ اور جامعہ کی تمام صلاحیتوں اور وسائل کو اللہ اور رسول کی اطاعت میں استعمال کرتا ہے، جو عبدیت ہے۔ لیکن جامعہ پر حاکمیت کی صورت میں خلافت کا پہلو (یعنی حاکمیت) نمایاں ہے۔ اور اس جامعہ کا، جو ایک اعتباری فرد ہے، اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو اللہ اور رسول کی تعظیم و اطاعت میں استعمال کرنے کا عمل ہے جو عبدیت ہے اتنا ظاہر نہیں۔ لہٰذا اس مرحلہ میں عبدیت سے تعبیر خلافت سے کی جائے گی۔ گویا کہ ذاتی اور شخصی زندگی میں خلافت سے تعبیر عبدیت سے کی جائے گی اور اجتماعی زندگی میں عبدیت سے تعبیر خلافت سے کی جائے گی۔ اگرچہ دونوں مراحل میں دونوں صفات موجود ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ کہ
۱۔ انسانی تخلیق کی حکمت، افادیت اور مقصد خلافت ہے۔
۲۔ محفوظ راستہ شخصی اور اجتماعی زندگی کا اللہ کی عبدیت اور رسول کی اطاعت ہے۔ جو ابتداء میں حصول خلافت اور بعد میں بقائے خلافت کا ذریعہ ہے۔
۳۔ بنیادی فریضہ جہاد ہے۔ شخصی زندگی میں جان اور مال کو نفس کے تسلط سے آزاد کرانا اور دلیل کے راستے سے وحی کی روشنی میں جان اور مال پر عقل کو حاکم اور مسلط کرانا۔ اور اجتماعی زندگی میں اس صالح جامعہ کو ضرر رساں اور محارب قوتوں سے بچانا اور اللہ اور رسول کی اطاعت میں چلا کر الٰہی خلافت قائم کرنا۔
۴۔ بنیادی ضرورت جماعت ہے۔ جس کی ابتداء نصب امام سے ہوتی ہے

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s