اگر جواب ہاں میں ہے تو آپ بہت خُوشی نصیب ہیں، اللّٰہ کے بہت پسندیدہ ہیں اور آپ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
اگر جواب نفی میں ہے تو ابھی وقت ہے توبہ کر کے اس “فِلم پروڈکشن” کو بہتر بنانے پر توجہ دیں کیونکہ آپ کی زندگی بروزِ محشر سب کے سامنے پیش کی جائے گی ۔۔۔
يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَىٰ مِنكُمْ خَافِيَةٌ° ترجمہ : “اُس دن تم سب لوگوں کے سامنے پیش کئے جاؤ گے، تمہارا کوئی بھید پوشیدہ نہ رہے گا۔” 《الحاقة: ١٨》 🔰 FARIHA KHAN🔰
کہیں آنسوٶں کـــی ہے داستاں، کہیں مسکراہٹوں کــــا ہے بیاں، کٸ چہرے اس میں چھپے ہوئے، اک عجیب ســـــــــا یہ نقاب ہے.. کہیں کھو دیــــــــــا کہیں پا لیا، کہیں رو لیا کہیں گـــــــــــــا لیا، کہیں چھین لیتی ہے ہر خوشی، کہیں مہربـــــــاں بے حساب ہے.. کہیں چھاٶں ہے کہیں دھوپ ہے، کہیں کـــــــوئی اور ہی روپ ہے، کہیں برکتوں کـــی ہیں بارشیں، کہیں تـــــــشنگی بے حساب ہے.. یہ جو زندگی کــــــــی کتاب ہے، یہ کتاب بھی کــــــــیا کتاب ہے، کہیں اک حسین ســـا خواب ہے، کہیں جـــــــــــان لیوا عذاب ہے…!
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) عالمی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کے سد باب کا نگران عالمی ادارہ ہے جو 1989 میں قائم ہوا اور پاکستان اس کا رکن ہے۔ اس ادارے کے زمے ہے کہ وہ حکومتوں کو ایسے اقدامات اور قوانین تجویز کرے جن پر عمل پیرا ہو کر ممالک اپنے مالی معاملات میں شفافیت لا سکیں اور منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت جیسی چیزوں کا سدباب کو سکے۔ تجویز کیئے گئے اقدامات پر ہونے والے عملدرامد کی بنیاد پر ادارہ مملک کو تین کیٹیگریز میں تقسیم کرتا ہے۔ بلیک لسٹ گرے لسٹ وائٹ لسٹ
بلیک لسٹ ممالک پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری رک جاتی ہے۔ بینک بین الاقوامی کاروبار کے حقوق سے محروم کر دئیے جاتے ہیں۔ ائیرلاینز پر پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ مختصر یہ کہ ملک معاشی طور پر تنہائ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
گرےلسٹ میں موجود ممالک کچھ حد تک مالی معاملات چلانے کی اجازت ہوتی ہے لیکن بین القوامی ٹرازیکشنز پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے۔ گرے لسٹ ممالک کو بین الاقومی کاروباری ادارے، مالیاتی ادارے اور بینکس مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔
وائٹ لسٹ ممالک کو ہر قسم کے کاروبار، مالی معاملات اور ٹرانزیکشنز کی آزادی ہوتی ہے اور بین القوامی طور پے ایسے ممالک کو اعتماد کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سرمایہ کار پورے اعتماد کے ساتھ سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
پاکستان کا ایف اے ٹی ایف سے تعلق کچھ ایسا رہا۔ 2008 میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا۔ 2010 میں پاکستان گرے لسٹ میں چلا گیا۔ 2012 میں دوبارہ بلیک لسٹ 2014 میں پھر گرے لسٹ 2015 میں وائٹ لسٹ اور 2018 میں مجھے کیوں نکالا کے ساتھ پاکستان کو بھی وائٹ لسٹ سے نکال کر پچھلے تین سال کی کارکردگی کی بنیاد پر دوبارہ گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا اور بلیک لسٹ کی تلوار تب سے پاکستان کے سر پر لٹک رہی ہے۔ پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی کوششوں کی قیادت ہمارا ازلی دشمن بھارت کر رہا ہے۔ 2018 میں نئی حکومت کے آنے کے بعد سے اب تک ایف اے ٹی ایف کی تین اجلاس ہوئے جن میں پاکستان کو گرے سے بلیک لسٹ میں ڈالنے کا معاملہ ایجینڈے پر شامل تھا لیکن بہترین سفارتی حکمت عملی اور اقدامات کے سبب پاکستان تینوں بار بلیک لسٹ میں جانے سے بچ گیا اور FATF کی طرف سے بتائے گئ اقدامات پر عملدرامد کے لیئے مزید وقت ملتا گیا۔ اب حکومت پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں لے جانے کی کوششوں کو انجام تک پہنچانے کے لیئے کوشاں ہے۔2018 میں FATF کے بتائے گئے 40 اقدامات میں سے 1 پر 100 فیصد عملدرامد 9 پر 70 سے 80 فیصد عملدرامد 26 پر 50 فیصد یا اس سے زائد عملدرامد کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اور 4 نکات ایسے ہی جن پر بالکل بھی عملدرامد نہیں ہو سکا اور اس کے لیئے قانون سازی کی ضرورت تھی۔
اب آتے ہیں اس بات پر کہ FATF کے موضوع پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں آپس میں چپقلش کیوں چل رہی ہے ؟
بنیادی طور پر ان 4 نامکمل معاملات اور عمومی طور پر تمام معاملات کو ٹھیک کرنے کے لیئے قانون سازی کی ضرورت تھی۔ اور ایک اچھا تاثر دینے کے لیئے حکومت کی کوشش تھی کہ اپزیشن کے ساتھ مل کر یہ قوانین پاس کروائے جائیں۔ لہذا اپوزیشن سے بات کی گئ۔ لیکن جو جواب آگے سے ملا وہ سن کر ایک شعر یاد آ گیا۔
دل کو سکون روح کو آرام آ گیا بندہ لا لوے چھتر تے پا لوے لمیاں
نون اور پی پی کی مشترکہ مذاکراتی ٹیم اس پاکستان کے لیئے عالمی سطح پر شرمندگی اور مالی مسائل کا باعث اس معاملے پر ووٹ دینے کے بدلے اپنی فرمائشوں کی ایک لسٹ لے کر آگئ جس کا ون پوائنٹ ایجینڈا اپنی اپنی لیڈرشپ کے خلاف کرپشن کے کیسز کا خاتمہ تھا۔ مطلب کہ ایک اور این آر او۔ ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکل کر وائٹ لسٹ میں جانے کے لیئے پیش کردہ قوانین کو ووٹ دینے کے بدلے نون اور پی پی انوکھے لاڈلوں نے کھلین کو مندرجہ زیل چاند مانگے تھے۔
1۔ نیب قوانین کا اطلاق 16 نومبر 1999 کے بعد سے ہو اس سے پہلے والے تمام کیسز ختم۔ 2۔ منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا اختیار نیب سے واپس لیا جائے۔ 3۔ 5 سال سے پرانے کرپشن کے مقدمات کی تحقیقات نہیں ہونی چاہیئے۔ 4۔ 1 ارب سے کم مالی بد عنوانی کو کرپشن کی فہرست سے نکالا جائے۔ 5۔ عدالتوں سے اپیلوں کا فیصلہ آنے تک عہدوں سے نا اہل نہ کیا جائے۔ 6۔ بینک نادہندگان پر نیب کا کیس بنانے کا اختیار ختم کیا جائے۔ 7۔ بیرون ملک اثاثوں کو نیب کے دائرہ کار سے نکالا جائے۔ 8۔ آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیق کا اختیار نیب سے واپس لیا جائے۔
مطلب کہ نیب اس کے بعد صرف بندے کی روٹیاں ہی گن سکے اور گھر سے 200 روپے کا سامان لینے کے لیئے جانے والے بندے کو 20 روپے اپنی جیب میں ڈالنے جیسے جرائم پر ہی کیس کر سکے۔
مختصر یہ کہ ایسا وقت جب ایک طرف ملکی وقار اور عزت داو پے لگی ہو اور ملک کو بلیک لسٹ میں ڈالا جانے والا ہو اور اس سے بچنے کے لیئے اقدامات کی حمایت کرنے کے وقت بھی جو سیاستدان اپنی ذاتی لوٹ مار کو بچانے کے لیئے کوشاں ہوں اور حکومت کو بلیک میل کریں تو ان کی اس ملک سے وابستگی پر سوال نہ اٹھائے جائیں تو اور کیا کہا جائے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حکومت نے گزشتہ روز قومی اسمبلی سے مطلوبہ بل اپوزیشن کے ووٹوں کے بغیر ہی پاس کروانے کے بعد آج سینیٹ سے بھی پاس کروا لیئے ہیں۔
البتہ 34 ریاستوں کے بعض سکولز میں جہاں “نا مکمل” سیکس ایجوکیشن دی جاتی ہے۔ ملک میں شادی کی کوئی پابندی نہیں، رضاکارانہ جنسی فعل ہر بالغ کا قانونی حق ہے۔ ملک میں طوائفوں کی تعداد ایک سے دو ملین تک ہے ملک کی تمام ریاستوں میں پولیس پر 100 جبکہ جیلز اور کریکشن سنٹرز پر سالانہ 80 بلین ڈالرز خرچ کیے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس کے باوجود ۔۔۔۔۔۔۔۔ ملک میں ہر سال اوسطاً ایک لاکھ زنا بالجبر کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ بیورو اَو جسٹس سٹیٹسٹکس کے مطابق رپورٹ ہونے والے کیسز کی شرح کل کیسز کا 38.4 فیصد ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہر ایک ہزار میں سے محض 384 کیسز رپورٹ ہونے کے باوجود ۔۔۔۔۔۔۔ پولیس محض 57 ملزمان کو گرفتار کر پاتی ہے یعنی صرف 5.7 فیصد ان 5.7 فیصد گرفتار ملزمان میں سے محض 11 پر تفتیش کے بعد مقدمہ چلتا ہے یعنی صرف 1.1 فیصد ملزم عدالت کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ ان گیارہ میں سے اوسطاً 7 پر جرم ثابت ہوتا ہے اور انہیں سزا سنائی جاتی ہے یعنی 0.7 فیصد۔
اب آپ تسلی سے اپنے ملک، قانون، سماج ۔۔۔۔۔۔۔۔ جسے چاہیں گالی دے سکتے ہیں !
پس نوشت: اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ صرف سیکس ایجوکیشن، فری سیکس کے مواقع سے ریپ کم نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔۔ تعلیم، شعور کے ساتھ ساتھ قانونی اور عدالتی اصلاحات اور سب سے بڑھ کر عبرت ناک سزا کا نٖفاذ ضروری ہے۔
مردانگی کسی جسمانی صلاحیت کا نام نہیں ہے۔۔۔ مردانگی ایک رویے کا نام ہے،،، جو آپ کو مرد،،، اور عورت سے برتر ثابت کرتا ہے۔۔۔ مردانگی یہ ہے،،، کہ کوئی عورت آپ کی موجودگی میں خود کو غیر محفوظ نا سمجھے،،، اور آپ کی نگاہ پڑتے ہی چادر درست کرنے پر مجبور نا ہو جائے۔۔۔مردانگی یہ ہے،،، کہ آپ کے جزبات پر عقل حاوی ہو۔۔۔ مردانگی یہ ہے،،، کہ آپ عورت پر ہاتھ اٹھائے بغیر یہ ثابت کریں،،، کہ آپ میں اپنی بات سمجھانے اور اس پر عمل کروانے کی صلاحیت ہے۔۔۔ہمارے معاشرے میں مردانگی یا تو ایک جنسی صلاحیت کا نام ہے،،، یا سختی اور بے حسی کا۔۔۔ہم اپنے بچوں کو بچپن سے یہ بتاتے ہیں،،، کہ مرد روتے اچھے نہیں لگتے۔۔۔ ہم ان کو یہ نہیں بتاتے کہ مرد رلاتے بھی اچھے نہیں لگتے۔۔۔ یہ کہتے آہستہ آہستہ ہم ان کی شخصیت کا حساس پہلو اپنے ہاتھوں سے مسخ کر دیتے ہیں۔۔۔ بڑے ہو کر یہی بچے عورت کے لیے تشدد کی وجہ بنتے ہیں۔۔۔اپنی زندگی میں مردانگی کی تعریف بدلیں۔۔۔ اور اپنے اندر مزکورہ بالا خصائل پیدا کریں۔۔۔ ورنہ آپ مرد کہلانے،،، اور خود کو عورت سے برتر کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔۔۔!!!
قرآن کی سوره یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان هوا ہے- ان کے سوتیلے بهائیوں کے غلط سلوک کی وجہ سے وه وقت آیا جب کہ حضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب بظاہر اپنے دو عزیز بیٹوں سے محروم هو گئے- اس حادثے کے وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کی زبان سے یہ دعائیہ کلمہ نکلا : انما اشکو بثی و حزنی الی اللہ (12:86) یعنی میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کا شکوه صرف اللہ سے کرتا هوں-
پیغمبر کی زبان سے نکلے هوئے یہ الفاظ ایک اهم حقیقت کو بتاتے ہیں- اس سے معلوم هوتا ہے کہ مومن جب کسی غم سے دوچار هوتا ہے تو وه عام انسان کی طرح آه اور فریاد میں مبتلا نہیں هوتا، بلکہ اس کا ایمانی شعور اس کے غم کو دعا میں ڈهال دیتا ہے- وه اللہ کی طرف رجوع هو کر اس سے التجا کرنے لگتا ہے کہ وه اس کے کهونے کو یافت میں بدل دے، وه اس کی محرومی کی حسن تلافی فرمائے-
کسی انسان کے ساتھ جب غم اور محرومی کا تجربہ پیش آتا ہے تو اس کے لیے ردعمل کی دو صورتیں هوتی ہیں- ایک ہے، انسانوں کی طرف دیکهنا، اور دوسرا ہے، خدا کی طرف دیکهنا- جو لوگ حادثہ کے وقت انسان کی طرف دیکهیں، وه صرف یہ کرتے ہیں کہ انسان کے خلاف فریاد و فغاں میں مبتلا هو جائیں- مگر جس شخص کا یہ حال هو کہ وه اس قسم کے تجربہ کے بعد خدا کو یاد کرنے لگے، وه چهیننے والے کے بجائے دینے والے کو اپنا مرکز توجہ بنا لے گا- اس کا ذہن مایوسی کے بجائے امید کا آشیانہ بن جائے گا-
دعا ایک طاقت ہے- نازک وقتوں میں دعا مومن کا سب سے بڑا سہارا ہے- دعا اس اعتماد کا سرچشمہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی کهونا آخری نہیں، بلکہ ہر کهونے میں از سر نو پانے کا راز چهپا هوا ہے- ہر آدمی کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب کہ وه اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے- ایسے لمحات میں خدا سے دعا کرنا آدمی کے دل کو سکون بخشتا ہے- دعا گویا کسی آدمی کے لیے کرائسس منیجمنٹ ( crisis management) کا بہترین ذریعہ ہے-
مردانگی یہ ہے،،، کہ آپ کے جزبات پر عقل حاوی ہو۔۔۔ مردانگی یہ ہے،،، کہ آپ عورت پر ہاتھ اٹھائے بغیر یہ ثابت کریں،،، کہ آپ میں اپنی بات سمجھانے اور اس پر عمل کروانے کی صلاحیت ہے۔۔۔
ہمارے معاشرے میں مردانگی یا تو ایک جنسی صلاحیت کا نام ہے،،، یا سختی اور بے حسی کا۔۔۔ہم اپنے بچوں کو بچپن سے یہ بتاتے ہیں،،، کہ مرد روتے اچھے نہیں لگتے۔۔۔ ہم ان کو یہ نہیں بتاتے کہ مرد رلاتے بھی اچھے نہیں لگتے۔۔۔ یہ کہتے آہستہ آہستہ ہم ان کی شخصیت کا حساس پہلو اپنے ہاتھوں سے مسخ کر دیتے ہیں۔۔۔ بڑے ہو کر یہی بچے عورت کے لیے تشدد کی وجہ بنتے ہیں۔۔۔
اپنی زندگی میں مردانگی کی تعریف بدلیں۔۔۔ اور اپنے اندر مزکورہ بالا خصائل پیدا کریں۔۔۔ ورنہ آپ مرد کہلانے،،، اور خود کو عورت سے برتر کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔۔۔!!!
بھوک پیاس کے بعد بالغ انسان کی تیسری اہم ضرورت جنسی تسکین ہے جائز ذریعہ نہ ہو تو بچہ بچی گناہ و ذہنی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں
اگر بارہ تیرہ سال میں بچے بچیاں بالغ ہورہے ہیں 25، 30 سال تک نکاح نہیں ہورہا، تو یہ جنسی مریض بنیں گے اور گناہ کریں گے ۔
اپنی بچیوں کے سروں پہ دوپٹہ ڈالنے کا مقصد تب پورا ہوگا جب ان کا نکاح وقت پہ ہوگا۔
نکاح انسانوں کا طریقہ ہے ، جانور بغیر نکاح کے رہتے ہیں رہ سکتے ہیں
ہر غیر شادی شدہ جوان لڑکا لڑکی ایک دوسرے کی طلب رکھتے ہیں لہذا اپنے بالغ بچے بچیوں کے نکاح کا بندوبست کریں
جوان بچیوں کو ہاسٹلز میں رکھنا شرعا صحیح نہیں ہے ۔ ان کی بنیادی ضرورت نکاح ہوتا ہے
اللہ تعالی نے معاشرتی اعمال میں سے نکاح کو سب سے آسان رکھا ہے اور زنا کیلئے سخت ترین وعیدیں ہیں ۔
بلوغت کے بعد مرتے دم تک نکاح انسان کے حیا کی حفاظت کرتا ہے ، بغیر نکاح کے انسان ” باولے کتے ” کی مانند ہوتا ہے۔
وقت پہ نکاح اولاد کا حق ہے اس میں تاخیر والدین کو گناہ گار کرتی ہے
انسان کی جنسی ضرورت کا واحد باعزت حل نکاح ہے اور نکاح نہیں ، تو زنا عام ہوگا یہ عام فہم نتیجہ ہے
بدقسمتی کی انتہا، کالج یونیورسٹیز میں بڑی بڑی لڑکیاں لڑکے بغیر نکاح علم حاصل کر رہے ہیں، والدین کو نکاح کی پرواہ ہی نہیں۔
والدین اپنی اولاد پہ رحم کریں اور وقت پہ نکاح کا بندوبست کریں، شادی کو نوکری یا فنانشل حالت سے نتھی مت کریں ۔
نوجوانوں کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ “جنسی زندگی ” ہے اور اس پہ بات کرنا ہمارے معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے ۔
جو والدین اولاد سے دوستی نہیں کرتے یا جو بچے والدین سے دوستی نہیں کرتے وہ مستقل نقصان کرتے رہتے ہیں
نکاح کو آسان بنائیں اگر اپنی معاشرت عزیز ہے ۔ بصورت دیگر عذاب کا انتظار کریں
حدیث: عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- مرفوعاً: «يا معشر الشباب، من استطاع منكم الباءة فليتزوج؛ فإنه أغض للبصر، وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم؛ فإنه له وِجَاءٌ». [صحيح.] – [متفق عليه.]
مفہوم: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے نوجوانوں کی جماعت! جو تم میں سے نکاح کرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کر لے کیونکہ نظر کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو (برائی سے) محفوظ رکھنے کا یہ ذریعہ ہے اور اگر کسی میں نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو تو اسے روزے رکھنا چاہیے کیونکہ وہ اس کی شہوت کو ختم کر دیتا ہے“۔ [صحیح] – [متفق علیہ]
تشریح: چونکہ پاکدامنی اور اپنی حفاظت کرنا واجب ہے اور اس کے برعکس ایسا کام کرنا حرام ہے جو کہ شہوت کی زیادتی اور ایمان کی کمزوری کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ جوانوں میں شہوت سب سے زیادہ ہوتی ہے، اسی لیے آپ ﷺ نے انہیں مخاطب کرکے پاکدامنی کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی کہ جو شخص نکاح کرنے کے لیے مہر، نفقہ اور رہائش کی طاقت رکھتا ہو، اسے شادی کر لینی چاہیے، اس لیے کہ شادی نگاہ کو بدنظری اور شرمگاہ کو فُحش کاموں سے بچانے کا ذریعہ ہے۔ اور جو نوجوان نکاح کی طاقت نہیں رکھتا حالانکہ اسے نکاح کا شوق ہو تو اسے روزہ رکھنے کا حکم دیا اس لیے کہ اس میں اجر ہے اور اس میں کھانے، پینے کو چھوڑنے کی وجہ سے جماع کی شہوت ختم ہو جاتی ہے، نفس کمزور ہوجاتا ہے اور خون کی رگیں بند ہوجاتی ہیں جس کے ساتھ شیطان دوڑتا ہے، روزہ شہوت کو توڑتا ہے۔